تازہ ترین:

حضرت عبد اللہ الزبعری، فضالہ بن عمیر اور حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے والد ابو قحافہ عثمان بن عامر رضی اللہ عنہم کا مشرف بہ اسلام ہونا_

Hazrat Muhammad Peace Be Upon Him Allah
Image_Source: facebook

حضرت عبد اللہ بن الزبعری رضی اللہ عنہ کا قبول اسلام: فتح مکہ کے بعد یہ نجران چلے گئے۔ حضرت حسان رضی اللہ عنہ نے اس کی طرف چند اشعار لکھ کر بھیجے جن میں اس کو اسلام قبول کرنے کی دعوت دی گئی تھی۔ ان اشعار کو پڑھتے ہی وہ اٹھ کھڑے ہوئے اور مدینہ طیبہ کی طرف روانہ ہو گئے۔ وہاں پہنچے تو حضورﷺ محفل میں تشریف فرما تھے۔ انہیں یوں لگا جیسے نورانی ستاروں کے جھرمٹ میں چودہویں کا چاند ضیاء پاشی کر رہا ہے۔ سرور عالمﷺ نے نگاہ اٹھا کر جب ان کی طرف دیکھا تو فرمایا یہ ہے ابن الزبعری۔ ان کے چہرہ پر آج اسلام کا نور چمک رہا ہے۔ سرکارﷺ کی اس دل موہ لینے والی گفتگو کو سن کر ان سے یارائے تکلم ہوئے عرض کی: "اَلسَّلَامُ عَلَيْكَ يَا رَسُوْلَ اللهِ ﷺاَشْهَدُ اَنْ لَّا اِلٰهَ اِلَّا اللهُ وَاَنَّكَ عَبْدُهٗ وَرَسُوْلُہٗ"

سب تعریفیں اللہ تعالی کیلئے ہیں جس نے مجھے آج اسلام قبول کرنے کی توفیق عطا فرمائی۔ آج تک میں حضورﷺ سے عداوت کرتا رہا، آپﷺ کے خلاف لشکر کشی کرتا رہا، گھوڑوں، اونٹوں پر سوار ہو کر آپﷺ پر حملہ آور ہوتا رہا، اگر کبھی کوئی سواری میسر نہ آئی تو پیدل چل کر بھی آپﷺ کے خلاف معرکہ آرائی سے باز نہ آیا، جب آپﷺ نے مکہ پر عَلم اسلام لہرا دیا تو میں وہاں سے نجران چلا گیا، میں نے دل میں یہ طے کیا ہوا تھا کہ میں کسی قیمت پر اسلام قبول نہیں کروں گا لیکن میرے رب کریم نے مجھ پر رحم فرماتے ہوئے میرے دل میں اسلام کی اور حضورﷺ کی محبت کی شمع روشن کر دی۔ پھر جب اس گمراہی کے بارے میں غور کرتا ہوں جس میں مبتلا تھا تو شرم و ندامت سے میری گردن جھک جاتی ہے۔ ان کی باتیں سن کر نبی رحمت ﷺ نے انہیں  بشارت دیتے ہوئے فرمایا: "اَلْحَمْدُ لِلهِ الَّذِيْ هَدَاكَ لِلْاِسْلَامِ اِنَّ الْاِسْلَامَ یَجُبُّ مَا كَانَ قَبْلَهٗ"

ترجمہ:  سب تعریفیں اللہ کیلئے جس نے تجھے اسلام قبول کرنے کی توفیق بخشی اور سن لو کہ جو اسلام قبول کرتا ہے تو اس کے پہلے سارے گناہ ملیامیٹ کر دئیے جاتے ہیں۔

(ایضاً، جلد 5، صفحہ 355)

 

حضرت فضالہ بن عمیر رضی اللہ عنہ کا مشرف بہ اسلام ہونا: فتح مکہ کے بعد حضرت فضالہ رضی اللہ عنہ حرم شریف میں آئے۔ دیکھا نبی کریمﷺ عمل طواف میں مصروف ہیں۔ انہوں نے ارادہ کیا جب میں پاس سے گزروں گا تو خنجر سے حضورﷺ پر حملہ کر کے آپﷺ کی زندگی کے چراغ کو بجھا دوں گا۔ جب وہ قریب پہنچے تو مرشد بر حقﷺ نے ان کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: اَ فُضَالَةُ؟ ترجمہ:  کیا تم فضالہ ہو ؟

عرض کی، ہاں میں فضالہ ہوں۔ پھر حضورﷺ نے فرمایا:  مَاذَا كُنْتَ تُحَدِّثُ بِهٖ نَفْسَكَ؟  ترجمہ: تم اپنے جی میں کیا گفتگو کر رہے تھے ؟

انہوں نے جواب دیا۔ کچھ بھی نہیں، میں تو اللہ تعالی کا ذکر کر رہا تھا۔ حضورﷺ ان کا یہ بہانہ سن کر ہنس دیئے اور فرمایا۔ "اِسْتَغْفِرِ اللهَ" ترجمہ: فضالہ! اللہ تعالی سے مغفرت طلب کرو۔

پھر اپنا دست مبارک ان کے سینہ پر رکھا اور ان کے بے چین دل کو سکون نصیب ہو گیا۔ حضرت فضالہ رضی اللہ عنہ خود فرماتے تھے۔ بخدا! حضورﷺ نے میرے سینہ پر ہاتھ رکھ کر جب اٹھایا تو میرے دل کی دنیا بدل گئی اور حضورﷺ دنیا جہاں سے مجھے محبوب معلوم ہونے لگے۔ اسی وقت انہوں نے بلا تأمل حضورﷺ کے دست ہدایت پر اسلام کی بیعت کا شرف حاصل کیا۔ حضرت فضالہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب میں حرم شریف سے واپس گھر جارہا تھا میرا گزر اس عورت کے پاس سے ہوا جس کے پاس بیٹھ کر میں خوش گپیاں کیا کرتا تھا۔ جب میں چپکے سے اس کے پاس سے گزر گیا تو اس نے مجھے آواز دی۔ فضالہ! آؤ باتیں کریں۔ حضرت فضالہ رضی اللہ عنہ نے جواب دیا۔ نہیں ہر گز نہیں۔ اور اسی وقت فی البدیہہ ان کی زبان پر اشعار جاری ہو گئے:

 

قَالَتْ هَلُمَّ اِلَى الْحَدِيْثِ فَقُلْتُ              

لَا يَاْبَىٰ  عَلَىَّ  اللّهُ وَالْاِسْلَامُ

اس نے کہا فضالہ آؤ بیٹھیں باتیں کریں۔ میں نے کہا ہر گز نہیں۔ اللہ اور میرا دین اسلام مجھے اس بات سے منع کرتا ہے۔

 

لَوْ مَا رَاَيْتِ مُحَمَّدًا وَقَبِيْلَهٗ   

بِالْفَتْحِ يَوْمَ تُكَسِّرَ الْاَصْنَامُ

فتح مکہ کے دن اگر تو اللہ کے حبیب محمد مصطفیٰﷺ کو اور آپﷺ کے صحابہ کرام کو دیکھتی جس روز بتوں کو ریزہ ریزہ کر دیا گیا تھا۔